نفرت سے محبت کا دور

اسکا دل کرتا تھاکے کچھ ایسا ہو کے ساری دنیا تباہ کردے۔ جس سے تھوڑی سی بھی تلخ کلامی ہوتی، مرنے مارنے پہ اتر آتا تھا۔ اسے گلہ تھا کے اسکے ساتھ ہی نا انصافی ہوتی ہے۔ اسے بچپن میں جگہ جگہ دھتکارا گیا۔ اس دھتکار نے اسکے اند انگارے بھر دئیے۔ ایک طرف اسکی توہین ہوتی تو دوسری طرف وہ مزید تنہائی اختیار کرتا گیا۔ غصہ اس قدر بھر گیا کے اسے سارے زمانے سے نفرت ہوگئی۔ مفلسی نے دامن چاک اور معدہ خالی کر دیا۔پندرہ سال کی عمر میں اس پر معاش کا بوجھ پڑ گیا اور سترہ سال میں میں اسکو چھوٹی موٹی نوکریاں کرنی پڑیں تو اپنی توہین کا احساس بڑھتا گیا اور ایک دن اس نے خاندان میں بغاوت کردی اور نوکری کرنے سے منع کردیا۔ ایک دن اچانک کچھ نیا ہوا اور زندگی میں پہلی بار قسمت نے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھیجا اور عین اس وقت جب نوکری چھوڑ دی، تنخواہ سے زیادہ وظیفہ پر اسے ایک ٹیکنیکل کورس کرنے کا موقع مل گیا۔ اس نے جی بھر کر محنت کی اور تین سال کے اس کورس میں پورے پنجاب میں ٹاپ کیا۔ یہ اسکے لئیے موقع تھا کے اپنی ذات کو منوا سکے یا پھر دھتکار وصول کرتا رہے۔

لیکن نفرت تھی کے تھمتی ہی نہ تھی۔ وہ ہمیشہ کڑھتا رہتا کے پتہ نہیں لوگ اسی کے خلاف ہی کیوں ہیں۔ وہ کوئی بات بھی کرتا تو مزاخ کا نشانہ بن جاتا۔ اسکی انا نے اسے بے عزتی سے بچانے کیلئیے تنہائی پسند بنا دیا تاکہ جتنا کم کسی کا سامنا کرنا پڑے گا، اتنی ہی کم توہین محسوس ہوگی۔

تنہائی میں دل لگانے کیلئیے اسنے کچھ تکنییکی کام کرنے کی کوشش کی تاکہ دل لگا رہے۔ وہ لوگوں کا غصہ اس مشغلے میں نکالنے لگا۔ جب بھی کسی جگہ سے توہین ہوتی تو وہ مزید وقت لوگوں سے دور رہتا اور اپنے کام میں دل لگا لیتا۔ پتہ ہی نہ چلا کے کب آہستہ آہستہ اسکا دل اسی مشغلے میں جڑ گیا اور وہ اپنا فری وقت صرف اور صرف اسی مشغلے میں لگاتا۔ صبح سے شام اور شام سے صبح ہوتی گئی۔ اگرچہ وہ کم لوگوں سے ملتا تھا لیکن آہستہ آہستہ الیکٹرونکس مارکیٹ کے لوگ اسکے مشغلے سے متاثر ہونے لگے اور اسے کام ملنا شروع ہوگیا۔ اسے کام میں مزا آتا تھا اس لئیے مکمل دلچسپی سے وہ مارکیٹ کا کام مشغلے کے طور پر کرتا رہا اس لئیے اسے کام میں تھکن نہیں ہوتی تھی اور کچھ نیا کرنے کا جزبہ برقرار رہتا۔ مارکیٹ ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہے اور چاہتے نہ چاہتے موقع ضرور دیتی ہے۔ دن تھوڑے سے نرم ہوگئے اور گزر اوقات چلنی شروع ہوگئی۔ تھوڑی آمدن ہوئی تو ساتھ ساتھ اپنی رکی ہوئی تعلیم دوبارہ شروع کر دی۔

اسے سب کیطرف سے ملنے والی نفرتیں اور توہین یاد تھی ۔ اس نے کمزور ہونے کے باعث جب جسمانی طور پر بدلہ نہ لے سکا تو کچھ عملیات میں پناہ ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔ عملیات روحانی تھے جن سے وہ اپنے مخالفین پر قابو پالیتا لیکن کچھ سال کے بعد عملیات بھی چھوڑ دیئے کے ان سے اسکے مقاصد پورے نہ ہوسکے۔ وہ لوگوں سے بدلہ لینا چاہتا تھالیکن وقت نے یہ بتادیا کے اپنی ترقی پر دھیان دو، دوسرے خود ہی جلیں گے اور بہترین بدلہ پورا ہوگا۔ دوسرا یہ بھی ہوا کے پرانے مشغلے سے اسے کئی نئے مشغلے ملنے شروع ہوگئے اور کرتے کرتے کمپیوٹر سیکھ گیا اور اسی کا ہوکے رہ گیا۔

انٹرنیٹ کا دور آیا تو اسکی توجہ اسی کی طرف مبزول ہوگئی اور اسے کبھی کبھی یاد آتا تھا کے اس نے لوگوں سے بدلہ لینا ہے۔ پھر اپنے کام میں مصروفیت کیوجہ سے بھول جاتا۔ ایکطرف کمپیوٹر کی لگن بڑھنے لگی اور دوسری طرف بدلے کی باتیں بھولنے لگیں۔

نوجوانی سے جوانی میں قدم رکھتے ہی کسی کو پسند کرنے لگا۔ لیکن ذریعہ معاش بہتر نہ تھا تو رشتہ ملنے میں رکاوٹ آگئی۔ آمدن پانچ ہزار تھی جو کے شادی اور خاندان کی کفالت کیلئیے ناکافی تھی۔ اب منزل اسے پسند کی شادی ہی نظر آرہی تھی اور اسکے لئیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ لہذہ تین ماہ کا چیلینج دیا گیا کے اگر اسنے اپنی آمدن بڑھا لی تو رشتہ ملنے کی توقعات بڑھ سکتی ہیں۔ محبوب کو حاصل کرنے کی لگن نے پاگل کر دیا۔ اسنے نئے انداز سے محنت کی اور رب کریم کی رحمت ہوئی اور تین ماہ کے اندر اندر پانچ ہزار سے آمدن کو پچیس ہزار تک لے گیا۔ ساس سے دوبارہ رشتہ کی بات ہوئی تو ساس کا رویہ کچھ نرم پایا۔
پیسہ پیسہ پیسہ، اسے نہیں پتہ تھا کے پیسہ ہی معاشرے میں بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔ جب سمجھ آئی تو اور پیسہ کمانے کے پیچھے پڑ گیا۔

دن بدلتے گئے اور پیسہ آتا گیا۔ ساس نے ایک دن رشتہ کی حامی بھر لی اور گھر میں بات کر کے کچھ ماہ میں راضی کر لیا۔ شادی ہوگئی، وہ اپنی دلہن کے لئیے بہتر زندگی کے حصول کو اپنا مقصد بنا بیٹھا، کچھ سال میں رب نے پہلی اولاد سے نوازہ تو مقصد میں اولاد کی زندگی کی بہتری بھی شامل ہوگئی۔ دن مزید بدلتے گئے اور اولاد کی قسمت اور اسکی محنت نے رنگ لایا تو گاڑی ٓاگئی، مکان کی کوشش کی تو رب کریم نے کئی مکان دے دئیے۔ 

اس سارے عمل نے اسکی نفرت کو بھلا دیا۔ نفرت کے جذبات کیلئیے اب اسکے پاس وقت ہی کم تھا۔ وہ جو پورے معاشرے کو جلانے کی بات کر رہا تھا اب اسے کسی سے بدلہ نہیں لینا۔ ایک دن وہ اپنے ماضی کو کھنگال رہا تھا تو پتہ چلا، کے رب کریم نے اس کو بدلنے کیلئیے کیسے کیسے بہانے بنا دیئے۔ لوگوں کی نفرت کی وجہ سے تنہائی اختیار کرنا، پھر تنہائی کاٹنے کیلئیے ایک اچھا مشغلہ چننا ،محبت، شادی، اولاد اور کاروبار میں توجہ وہی بہانے تھی جس نے اسکی نفرت کو محبت میں بدل دیا۔ واہ میرے مولا واہ، تو کتنا رحیم اور کریم ہے۔ تو اس سے نفرت کرکے ایسے انسان کو سزا بھی تو دے سکتا تھا۔ لیکن تونے اسکے لیئے آسانیاں پیدا کرکے اسے بدل دیا۔

آجکل وہ رب کو رب کریم ہی کہتا ہے (سمجھ تو گئے ہوگے😀)