انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان کے کل قرضے

تین ہفتے پہلے ایک پاکستانی نوجوان نے اپنی آئی ٹی کمپنی 840 ارب میں بیچ سکتا ہے تو مجبوری کیا ہے؟

کسی بھی ملک کی کرنسی اور معاشی طاقت کا زیادہ تر انحصار اس ملک کی دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کے بدلے کمائی یا زر مبادلہ پر ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر ملک اس وقت معاشی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں جب پوری ریاست کی کمائی، ریاست کے اخراجات سے کم ہوجائے۔ کسی بھی ریاست کی مثال اس گھر جیسی ہے جس کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں۔ دوسری طرف کس ریاست کی کرنسی اس وقت کمزور ہوتی ہے، جب ریاست اپنے پاس موجود دولت یا مال کی نسبت زیادہ کرنسی نوٹ چھاپ چکی ہو۔ یہ دولت یا مال زر مبادلہ یعنی ڈالر، پاونڈ یا دینار وغیرہ یا پھر سونا، چاندی کی صورت میں ریاست کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔ اگر کسی ریاست کی کرنسی کو بہتر کرنا ہو تو زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانا ریاست کی پہلی فوقیت ہوتا ہے۔

پاکستان کی کرنسی کی قدر پچھلے کچھ سال سے تیزی سے نیچے گر رہی ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کے اگر اس طوفان کے رستے میں بند باندھنا ہے تو ہمیں ہر صورت میں اپنی کرنسی کو مظبوط کرنا ہوگا۔ اس امر کیلئے ہمیں زیاد زر مبادلہ کمانا ہوگا اور ایسے طریقے وضح کرنے ہوں گے جس سے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ کمایا جاسکے۔

اس وقت پاکستان مختلف ممالک سے لئے گئے قرض تقریبا 130 ارب ڈالر ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر16 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اس سے اندازہ کیجئیے کے ہم نے پچھلی کچھ دہائیوں میں اپنی حثییٹ سے بڑھ کر قرض لے لیا۔ پوری عوام جانتی ہے کے یہی قرض ہمارے ملک کو کمزور سے کمزور تر کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک کے پاکستان کو ہر سال کم از کم 5 ارب ڈالر مزید قرض لینا ہی پڑتا ہے وگرنہ ملک کا نظم نسق چل ہی نہ پائے گا۔ مزید براں ہماری حکومتیں اپنی ضرورت سے زیادہ قرض بھی لیتی ہیں جس سے قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔

ایسا نہیں کے ہم اس بوجھ کو اتار نہ سکیں، بلکہ شاید ہم اسے اتارنا ہی نہی چاہتے ورنہ اسے کے کچھ “جگاڑ” موجود ہیں۔ اس آڑٹیکل میں ہم صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری ریاست کے معاشی مسائل کے حل پر بات کریں گے۔

دوستو تقریبا تین ہفتے پہلے پاکستان کے ایک نوجوان عاقب غادت جو کے کراچی میں NED یونیورسٹی کے شاگرد رہ چکے ہیں، انہوں نے اپنی انٹرنیٹ سے متعلقہ کمپنی CloudWays ایک بڑی امریکی کمپنیDigital Ocean کو $350 Million USD کے عوض بیچ دی۔ یہ خطیر رقم کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کے ایک میلین ڈالر پاستان میں اس وقت2400 یا 2.4 ارب روپے کے برابر ہے۔ اس کمپنی کو عاقب نے مجموعی طور پر 840 ارب روپے کے عوض بیچا۔

یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صرف ایک کمپنی کی بات ہے لیکن آپ دیکھئیے اگر حکومت پاکستان اس بات پر دھیان دے اور پاکستان میں اسطرح کی کمپنیز کھولنے میں ہزاروں طلبہ و طالبات کو ٹریننگ دے تو، کچھ سالوں میں ہمارے کئی نوجوان ایسی کمپنیز بنا کر پہلے تو اس سے پیسے کما کر پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا موجب بنیں گے، پھر اگر وہ اپنی کمپنیز بیچیں گے تو تب بھی پاکستان کو یک مشت بڑے بڑے فائدے ہوں گے۔ آپ اندازہ کر لیجئیے کے اگر پاکستان ایسے 372 نوجوان تیار کردے جو عاقب کی طرح $350 Millon میں اپنی کمپنی بیچ سکیں تو پاکستان کے قرض ادا کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ چیز مکمل طور پر ممکن بنانا ناقابل عمل ہے، لیکن اس طریقے سے ہمارا ڈھیروں معاشی بوجھ ضرور اتر جائے گا۔ دوسری طرف ہمیں صرف اسطرح کی کمپنیز نہیں بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اور ذرائع مثلا فریلانسنگ اور ای کامرس وغیرہ کو فروغ دے کر بھی یہ بوجھ اتارنا ممکن ہے۔

کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کے عاقب پاکستان میں یہ 840 لے کر نہیں آئے، جس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ نہیں پہنچا۔اس کا یہ مطلب نہیں کے عاقب پاکستان کے وفادار نہیں یا پاکستان سے محبت نہیں کرتے بلکہ یہ انکی مجبوری تھی۔ اس مجبوری کا اس وقت پتہ چلا جب کچھ سال پہلے ہم لوگ ہی ایسے ہی کچھ IT Startup پر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے تھے۔ اگر حکومت پاکستان ایسی مجبوریاں ختم کردے تو اس شعر کے مصداق۔

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

حکومت پاکستان اگر مندرجہ ذیل اقدامات کرے، تو پاکستان میں کئی ٹیلینٹڈ نوجوان اپنے ٹیلینٹ کے ذریعے نہ صرف اپنے زاتی معاشی حالات بہتر کر سکتے ہیں بلکہ ملکی قرض اتارنے اور کرنسی کی بحالی میں ایک بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

* سب سے پہلے لوگوں کے لئے عزت، تحفظ اور معاونت کا انتظام کیا جائے تاکہ ہمارے زرخیز ذہن بیرون ملک رہنے کو ترجیح نہ دیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کے ذرخیز ذہن اپنی آمدن کا خود سے انتطام کر لیتے ہیں لیکن اگر انکو تحفظ اور عزت کے احساس کے ساتھ تعاون بھی مل جائے تو یہ بہت کمال کے کام کر سکتے ہیں اور ملک میں رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔
* ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیادی تعلیم جس میں کئی فری لانسنگ کے سکلز، آوٹ ریچنگ کے سکلز، ڈیلنگ کے سکلز اور نئے نئے آئیڈیاز کی تخلیق اور تعمیر کی منازل کا علم دیا جائے۔
* سوفٹ وئیر ایکسپورٹ کرنے والوں کو پچھلی دو دہائیوں سے ٹیکس کی چھوٹ تھی جو کے ختم کر دی گئی، اسے بحال کرکے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
* گورنمنٹ کی تعاون سے ایسی نمائشیں، کانفرنسیں اور سیمینار کروائے جائیں جہاں ملک کے امیر ترین اشخاص کو مدعو کرکے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے تاکہ ٹیلنٹڈ نوجوان جو سرمایہ کاری نہیں کر سکتے انکو بڑے سرمایہ کار سپورٹ کریں اور ملک کر آمدن اور ترقی کو ممکن بنائیں۔
* سکولوں کی سطح پر بچوں کے جہاں کچھ اور کہانیاں پرھائی جاتی ہیں، وہاں پاکستان میں عاقب جیسے نوجوانوں کی کہانیاں بھی پڑھائی جاسکیں تاکہ بچوں کو کالج تک پہنچے سے پہلے پہلے انکی ذہن سازی کی جاسکے۔
* پاکستان میں PayPal کی سروسز کو قابل عمل بنانے کیلئے انکی ڈیمانڈز(Money Laundering Act) جو کے پاکستان کے بھی حق میں ہے، کو جلد سے جلد پورا کیا جائے تاکہ PayPal آنے سے پاکستان میں کئی فری لانسرز اور انفارمیشن کمپنیز کو یہ سہولت مل سکے۔
* انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت ہمیشہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نام بنانے والے کسی بڑی شخصیت کو دی جائے زمانہ حال میں یہ وزارت انک لوگوں کے پاس رہتی ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر نابلد ہیں۔
* ضلعی سطح پر فریلانسنگ کی ٹریننگ کے جو چند سینٹرز چھے سال پہلے بنائے گئے تھے جو نوجوانوں کو مفت فری لانسنگ کی تعلیم دیتے تھے، کی تعداد کو بڑھا کر ہر بڑھے شہر تک پہنچایا جائے، تاکہ پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد دو لاکھ سے دس لاکھ اور پھر بیس لاکھ تک پہنچائی جاسکے۔
* حکومت ایسا ادارہ قائم کردے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے لوگوں کے بیرون ملک فنڈنگ اور ڈیلنگ میں معاونت کر سکے۔
* انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اگر کام کرنے والے لوگوں کے دوسرے ممالک میں سفر کرنے کی ضرورت پڑے تاکہ وہاں پر لوگوں سے ڈیلز کر سکیں، تو حکومتی سپیشل ڈیسک ویزا کے حصول میں انکی ہر ممکن مدد کریں۔
* ہمارے ملک میں برین ڈرین (قابل ذہنوں کو ملک سے باہر چلے جانا) کیوں ہورہا ہے، اس کا ہر صورت میں تدارک کرنا چاہئیے۔
* عاقب کی طرح کے نوجوانوں کے وزرا تو نہیں لیکن مشیروں کا درجہ دے دیا جائے، تاکہ ایک طرف تو انکو عزت و تکریم ملے اور دوسری طرف وہ نوجوانوں کے ترقی کی راہ میں معاونت کر سکیں۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کے دنیا کے کئی ممالک میں ایسی آئی ٹی کمپنیز ہیں جن کی معاشی قدر پاکستان کی پوری ریاست سے زیادہ ہے۔ لہذا آج کے دور میں اگر ہمیں معاشی ترقی کرنی ہو تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہاتھ مظبوطی سے تھام لینا چاہئیے۔

دوستو مندرجہ بالا چیزوں سے ہٹ کر اگر آپ اپنی قیمتی رائے دینا چاہیں تو کمنتس سیکشن میں ضرور دیجئیے تاکہ اس آرٹیکل کو ہم بہتر سے بہتر بنا سکیں۔