کیا ہم یہ معاشی جنگ نہیں لڑ سکتے؟

انڈیا کی آئی ٹی انڈسٹری ہر سال 180 ارب ڈالر کماتی ہے، جبکہ پاکستان کی صرف 2 ارب ڈالر۔ پاکستان، آبادی کے لحاظ سے، انڈیا سے پانچ گنا چھوٹا ملک ہے۔ اگر ہم اسی تناسب سے ترقی کی رفتار کو مد نظر رکھیں، تو پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی آمدنی 36 ارب ڈالر ہونی چاہیے تھی۔

اگر ہمیں حقیقی ترقی کرنی ہے، تو پہلے ان مسائل کا جائزہ لینا پڑے گا جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

ہمارے ہاں، اگر سوشل میڈیا اور مقامی لوگوں سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زیادہ تر طلبہ اپنے آپ کو اساتذہ سے زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں اور اساتذہ کی عزت نہیں کی جاتی (یہ بات میں اپنے بارے میں نہیں کہہ رہا؛ الحمدللہ، مجھے میرے شاگردوں سے کوئی شکایت نہیں ہے، اور ہمارے کچھ دوسرے دوست اساتذہ بھی یہ شکایت نہیں کرتے)۔

جبکہ انڈیا کی عوام میں آپکو تقریبا ہر بندہ “سر”، “سر” کہتا نظر آئے گا، چاہے مخاطب باقائدہ ایک استاد نہ ہو، بلکہ سینئیر ہو۔

یہ رویہ سیکھنے کے عمل میں ہمیشہ معانت کرتا ہے اور ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اب آپ سوچئیے کے ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہئیے تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔

انڈیا کی آئی ٹی منسٹری نے اپنے ملک میں جدید علوم کی ترویج اور اپنی عوام کے لیے جدید کاروباروں کی سہولت کے لیے بہت محنت کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان کی یہ صنعت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔

جبکہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئیے پچھلے بیس سالوں میں صرف تین کام کئے جن کے اثرات آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ا) مشرف حکومت نے سوفٹ وئیر ایکسپورٹ کرنے والوں کو ٹیکس ادا کرنے کی چھوٹ دی جو کے کئی سال قائم رہی اور اسے آئندہ آنے والے حکمرانوں نے بھی بڑھایا یہاں تک کے اسے 2025 تک بڑھا دیا گیا۔ یہ عمل تقریبا ہر ملک اپنی نئی نئی صنعتوں کے فروغ کیلئیے کرتا ہے۔ لیکن ایک سال پہلے حکومت نے اس چھوٹ کے وقت کے بڑھاوے کو ختم کردیا اور 2021 کے بعد تمام سوفٹوئیر ایکسپورٹرز کو ٹیکس کی ادائیگی کا حکم ہوگیا۔ ب) پنجاب میں ڈاکٹر عمر سیف کے دور میں ارفع کریم پارک نے اپنی خدمات کا آغاز کیا اور ورلڈ بینک سے معاونت حاصل کرکے ہمارے لوکل ذہین لوگوں کے آئیڈیاز کو فنڈ کرنے کی راہ ہموار کی۔ ت) اسی دور میں ضلعی لیول پر فریلانسنگ ٹریننگ سینٹرز قائم کئے گئے، جنہوں نے کئی ہزار فریلانسرز تیار کئے اور انکے دیکھا دیکھی digiskills اور کچھ اور نجی اداروں نے بھی اپنا بھرپور کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ، آئی ٹی کے صنعت کے ساتھ ہمیشہ سوتیلوں جیسا سلوک ہوتا رہا۔

جبکہ انڈیا میں آئی ٹی کی صنعت کی اہمیت کا اندازہ کیجئے کے انکے وزیر اعظم amazon سے خود میتنگ کرکے اپنے لوگوں کے لئے سہولیات کی ڈیل کرتے ہیں۔ وہاں پے پال بھی ہے اور کئی بڑی کمپنیز بھی آئی ٹی کی صنعت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انکی وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی نے اپنے ملک کے قابل لوگوں اور کاروباری حضرات کے پہلی دنیا کی بڑی بڑی دنیا کے قریب کر دیا جس سے انکی مقامی سوفٹوئیر کمپنیز ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنیز کو ترقی کی ایک نئی راہ ملی۔

۳۔ پاکستان میں عوام پیسے کمانے کی بجائے پیسہ دکھانے کی زیادہ خواہشمند ہے۔ اگر پیسہ کمانا ہمارے لوگوں کے مقصد ہوتا تو ہماری عوام پیسے کے پیچھے نہ بھاگتی بلکہ ہنر اور تجربہ کو فوقیت دیتی، یہی طریقہ پیسے کمانے کا سب سے بہتر طریقے ہے۔ جبکہ زیادہ تر لوگ جلد سے جلد پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن باقائد کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ یقین کیجئیے کے ہم میں سے اکثر لوگوں کے پاس اگر آج اچانک بہت سارا پیسہ آجائے تو ہم اس سے سونے کی چینز پہن کر مہنگی مہنگی حویلیاں بنوا کر اپنے کارواں میں ویگو ڈالے پر اپنے گارڈز کے ساتھ گارڈ آف آنر کے مزے لینے کی کوشش کریں گے، جبکہ اگر پیسہ مل جائے تو اسے نئے سے نئے کاروبار میں لگانا چاہئیے تھا، تاکہ کئی اور لوگوں کے لئے روزگار ملتا اور ہم بھی کاروبار سے مزید پیسے کماتے۔

راوی اس موضوع پر انڈیا کی عوام کے متعلق کوئی باوثوق رائے دینے سے قاصر ہے کیوں کے انڈیا کے کلچر کا یہ پہلو راوی کی نگاہ سے نہیں اتر سکا جبکہ بادی النظر میں لگتا ہے کے وہاں کے لوگ ہنر مندی کے رستے سے پیسہ کمانا چاہ رہے ہیں۔

۴۔ سیاسی بحران بھی ہمارے ملک کا ایک المیہ ہے۔ آپ آئے دن ملک میں سیاسی ہل چل دیکھتے ہوں گے، کبھی یہ پارٹی، کبھی وہ پارٹی اور کبھی تیسری پارٹی (انکا نام نہیں لے سکتا😂)۔ اس طرح کے سیاسی بحران ملکی سیاستدانوں کو آپس میں لڑنے میں ہی مصروف رکھتے ہیں اور وہ باہر کی دنیا سے اپنی عوام کے فوائد کی بات نہیں کر پاتے۔

جبکہ انڈیا میں سیاسی بحرانوں پر تقریبا دو دہائی پہلے قابو پا لیا گیا اور اسکے بعد انکی ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔ اگر میرے قارئین نہیں جانتے تو انکے علم کے لئے بتادوں کے انڈین کرنسی پاکستان کی کرنسی کمزور تھی لیکن آج آپ خود ہی دیکھ لیجئیے کے انکی کرنسی تو کیا بنگلہ دیش کی کرنسی بھی ہم سے بہتر ہوچکی ہے۔

سیاسی بحرانوں سے نپتنے کیلئیے اب کی بار عوام کو ہی یہ ذمہ داری نبھانی پڑے گی اور ایسی جماعتوں کو رد کرنا پڑے گا جو آپس میں لرائی کرتی اور کرواتی ہوں( اسطرح تقریبا تمام سیاسی پارٹیاں رد ہوجائیں گیں، خس کم جہاں پاک)😂

۵۔ ہمارے اساتذہ کا رویہ رجعت پزیر ہے اور وہ بھی ترقی نہیں کرنا چاہتے۔ پچھلی دو دہائیوں میں میرا رابطہ بے شمار اساتذہ اکرام سے ہوا۔ محسوس یہ ہوا کے کوئی بھی استاد اپنے دہائیوں پہلے کے علم کو اپنی زندگی کو دھکا لگانے کا ذریعے بنائے ہوئے ہیں اور کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کی لگن سے بے زار ہیں۔

جبکہ انڈیا میں مقابلے کی فضا قائم ہوچکی ہے اور انکے اساتذہ کو اپنے کیرئیر کو قائم رکھنے کیلئیے نئی سے نئی چیز سیکھنی پڑتی ہے۔

۶۔ ہماری وراثت میں روایتوں سے ضرورت سے زیادہ محبت ملی، جبکہ ہمیں چاہئیے تھا کے وراثت میں سے ایسی چیزیں نکال دیں جو ترقی کی راو میں حائل ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری پچھلی نسل روائیتی کاروباروں کے ذریعہ معاش چلاتی تھی اور آج بھی ہم کوئی نہ کوئی روائیتی کاروبار ہی چاہتے ہیں۔ اندازہ کیجئیے کے ہم روائیتی کاروباروں پر سرمایاہ کاری تو کر سکتے ہین لیکن وہی پیسہ جب ہمیں کوئی آن لائن کام میں لگانا پرے تو تسلی نہیں ہوتی۔ جدید کاروبار کے خواہشمندوں کی تعداد کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ ہماری روائتوں کے مطابق ہمیں رشتے پہلے نبھانے پرتے ہیں جبکہ معاشی سرگرمی بعد میں۔ جبکہ اگر ہم اپنا معاش بہتر کر لیں تو رشتوں کو بہتر انداز میں چلانا بھی ممکن ہوتا ہے۔

انڈیا میں بھی روائیتوں کو نبھانے کا کام جاری ہے، مگر اکثریت نے زیادہ رشتوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنے خاندان تک محدود کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ دوسرے پہلو انکی ترقی کا باعث بن رہے ہیں۔

اس تقابل سے آپ نوٹ فرما لیجئیے کے ہماری کئی کوتاہیاں آڑے آتی ہیں اور ترقی کے حصول میں ناکام بناتی ہیں۔ آج ہمیں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرلینا چاہئیے کے ہم واقع ہی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں کن کن اعمال و افکار سے کنارہ کشی کرنی چاہئیے اور کن کن اعمال و افکار کو اپنا لینا چاہئیے۔

دوستو یہ میرے نالائق ذہن کا تجزیہ ہے اور آپکو اس سے اختلاف کا پورا پورا حق کے، آپ کی رائے کا انتظار کروں گا تاکے کچھ نیا سیکھنے کو مل سکے۔