یہ لوگ ناکام نہیں ہوتے

ہماری نسل کے کئی لوگوں سمیت نئی نسل کے بے شمار جوان نئے کاروباری رحجانات میں اپنی جگہ بنانے میں اکثر ناکام رہتے ہیں، لیکن پھر بھی ہم میں سے کچھ لوگ بڑی تیز رفتار سے ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تیرہ سالہ بچے کی کہانی آج آپ دوستوں کے گوش گزار کر رہا ہوں تاکہ آپ اس بچے کا کام کرنے میں انہماک اور مزاج دیکھ کر شاید کچھ نیا سیکھ سکیں۔

میرے دفتر میں شام چار بجے سے چھے بجے تک روزانہ آپ دوستوں کی مفت مشاورت کے لئے دستیاب ہوتا ہوں۔ یہاں، کئی دوست خود یا اپنے بچوں کے لئے مشاورت کیلئے آتے ہیں اور میں ان کی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہوتا ہوں۔ کچھ ماہ پہلے ایک خاتون اپنے ایک تیرہ سالہ بچے کیساتھ آفس میں تشریف لائیں اور مشاورت کے لئے اپنی باری کا انتظار کرتی رہیں۔ جب انکی باری آئی تو کہنے لگیں کے سر میرا بچہ بہت ہی ٹیلنٹڈ ہے، اس کی راہنمائی کیجئے کے یہ مستقبل میں کونسی راہ اپنائے جو اس کیلئے بہتر ہو۔ میں نے کہا کے میں بچے سے کچھ بات چیت کر لوں تاکہ کچھ اندازہ ہوسکے کے بچہ کیا کرتا ہے۔ خاتون کچھ دیر تک بچے کی جگہ میرے ہر سوال کا جواب دے رہی تھی، جبکہ میں اسرار کررہا تھا کے مجھے بچے سے ہی بات کرنے دیجئے۔ بحرحال میرے مزید اسرار پر انہوں نے خاموشی اختیار کی تو بچے سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے بچے سے سوال کیا کے بیٹا آپ کیا کر رہے ہو؟

بچے  نے بتایا کے وہ اپنی تعلیم کیساتھ ساتھ گرافک ڈیزائنگ کرکے کچھ پیسے بھی کمارہا ہے اور اسکے ہاتھ میں ستر ہزار روپے کا جو موبائل فون تھا، وہ بچے نے اپنی کمائی سے ہی خریدا ہے۔

میں نے مزید سوال کیا کے آپ نے یہ گرافک ڈیزائننگ کیسے سیکھی؟

بچے نے بتایا کے انٹرنیٹ پر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکثر اوقات ایڈز میں کچھ اچھے اچھے بروشرز/پوسٹرز دیکھتے تھے، جو بڑے اچھے ڈیزائن کئے جاتے تھے۔ میں انکو دیکھ کر اکثر سوچتا تھا کے کاش میں بھی ایسا کچھ ڈیزائن کر سکتا ہوں اور سوشل میڈیا پر اپنے ہم عمر دوستوں کو متاثر کر سکوں۔ اسی طرح میں نے یوٹیوب پر دیکھا کے کیسے یہ پوسٹرز Canva ایپ کی مدد سے ڈیزائن کئے جا سکتے ہیں۔ اور کچھ ڈیزائن کرنا شروع کر دیا اور شوخی مارنے کے لئے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شئیر کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ، میری لگائی گئی پوسٹیں زیادہ ویوز لینے لگیں اور مجھے مزید خوشی ملنے لگی اور میں مزید اچھے ڈیزائن کرنے لگا۔ تب تک مجھے پتہ نہیں تھا کے میرے اس ہنر سے گاہک بھی مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں، جبکہ میں صرف اپنے دوستوں کو متاثر کرنے کیلئے اچھی ڈیزائن کرنے کا ہنر سیکھ رہا تھا۔ ایک دن، میرے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر میسیج آیا کے کیا میں انکو ایک ایسا ہی ڈیزائن بنا کر دے سکتا ہوں؟ وہ لوگ مجھ سے کچھ روپے بھی دیں گے۔ میں نے ہاں کہ دی اور انکو ڈیزائن بنا کر دیا اور انہوں نے کچھ سو روپے مجھے بھیجے جو میں نے اپنے والدہ کے اکاؤنٹ میں منگوائے۔ اسی طرح وہ اکثر مجھ سے کچھ کام کرنے کا کہتے اور میں کچھ نیا ڈیزائن کر کے دے دیتا اور کچھ پیسے آتے۔ جب پتہ چلا کے اس کام کے پیسے بھی آتے ہیں تو میں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کو اسی طرح سے ڈیزائن کرنا شروع کیا کہ لوگوں کو پتہ چلے کے میں ان کے پراجیکٹ کے لئے بھی ڈیزائننگ کی خدمات دے سکتا ہوں۔ اس طرح اور کئی گاہک آنے لگے اور میری آمدن بڑھنے لگی۔

بچے کی اس کہانی سے میں بہت متاثر ہوا اور بچے کو سوال کیا کے آپ نے اس سے پہلے ڈیزائننگ یا پھر کلائنٹس کے حصول کیلئے اپنے ارگرد گرد کسی استاد سے راہنمائی لی؟

بچے نے جواب دیا، نہیں سر ، آپ پہلے شخص ہیں جن سے میں راہنمائی لینے آیا ہوں، اس سے پہلے صرف انٹرنیٹ سے ہی راہنمائی لی اور خود سے ہی ہر ایک چیز سیکھی۔

یہ جواب اور بھی خوش ائند تھا اور میں نے بچے کی بہت تعریف کی۔

بچے کی والدہ نے کہا سر، یہی تو میں کہہ رہی تھی کے میرا بچہ بہت ہی ٹیلنٹڈ ہے، آپ اسکی مزید راہنمائی کیجئے کے یہ زیادہ بہتر مستقبل کیلئے کیا کرے۔

میں نے کہا کہ خاتون اس بچے کو فلحال نہ آپ اور نہ میں کوئی راہنمائی نہیں کرے گا، یہ اپنی ڈگر پر خود ہی آچکا ہے اور کوئی بھی راہنمائی کرنے والا نیک نیتی کے باوجود اس بچے کی راہ خراب کر سکتا ہے۔ ایسے بچے لاکھوں میں نہ سہی، لیکن ہزاروں میں ایک ہوتے ہیں جو اپنی منزل کا چناو خود کرکے تنہا سفر بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بچے زندگی میں کسی کی مدد کے بغیر بھی اپنی راہ پر چل ک منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔

خاتون کہتی ہیں کے سر پھر میں اس بچے کے متعلق اور کیا کروں۔

میں نے کہا کہ اس کے بڑے ہونے کا انتظار! اسے جوان ہونے دیں، اندازہ کریں تب تک وہ سیلف-لرننگ سے کیا کچھ سیکھ چکا ہوگا۔ اور یاد رہے کے اس بچے کو کسی راہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ اکثر پارکنگ کرتے وقت کار تب ہی ٹکراتی ہے جب کوئی ڈرائیور سے کہہ رہا ہوتا ہے “آنے دو، آنے دو”، اگر ڈرائیور خود ہی کار پارک کر رہا ہوتا ہے، تو اکثر پارک بہترین طریقے سے ہوتی ہے۔ مزید اس بچے کو ہر چھے ماہ کے بعد صرف میرے پاس لے آئیے تاکہ بچے کی کارکردگی کو مکمل طور پر چیک کیا جا سکے۔

دوستو، آپ اس کہانی سے چند چیزیں نوٹ کر لیجئے،

۱۔ علم و ہنر کسی کو سکھایا نہیں جاسکتا، بلکہ سیکھا جاتا ہے۔ سیکھنے والے کے لئے ہزاروں رستے ہیں اور نہ سیکھنے والے کے لئے تمام گلیاں بند ہیں۔

۲۔ خود اعتمادی آپ کی ترقی کی راہ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

۳۔وہ لوگ جو ہنر کو محبت سے کرتے ہیں، ان کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے کیونکہ وہ کام کرنے کو پسند کرتے ہیں، ان کا دل کام کے لئے تڑپتا ہے، اور وہ پیسے کمانے کی بجائے اپنے ہنر کو بہتر بنانے میں رہتے ہیں۔

۴۔ زندگی اپنی اپنی زمہ داری ہے، اسکو نبھانے کیلئے کسی اور کا انتظار کئے بغیر خود ہی تیاری پکڑ لینا چاہیے۔

۵۔ عمر کے بڑھنے سے ترقی کی راہوں پر چلنے کے لحاظ سے بڑا فرق نہیں پیدا ہوتا، بلکہ ذہانت اور تجربات ترقی کی مضبوط بنیاد ہوتے ہیں۔

۶۔ اپنی منزل کے راستے پر کسی کا انتظار نہ کریں، بلکہ گامزن ہوجائیے۔ اگر نصیب میں ہوا تو کوئی ہمسفر یا راہنما آپکے ساتھ جڑ جائے گا، ورنہ آپ سفر جاری رکھیں۔