ہم امیر بننے کی بجائے امیر دکھنا چاہتے ہیں

پاکستان بھر میں بالخصوص پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ رحجان کثرت سے پایا جاتا ہے کے گھر میں چاہے چولہا نہ جلتا ہو، باہر ہم صرف امیر نہیں بلکہ رئیس زادے نظر آتے ہوں۔ ان میں سے جو لوگ امیر بننے پر ہی غور و فکر اور کوشش کرتے ہیں وہ امیر ہو ہی جاتے ہیں، جبکہ صرف امیر دکھنے کی خواہش کرنے والے اکثر پیچھے ہی رہ جاتے ہیں۔

انیس سو ستانوے میں گوجرانوالہ سے لاہور شفٹ ہونے کے بعدجس چیز نےسب سے پہلے توجہ حاصل کی وہ یہاں کے رسم و رواج، فیشن اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق امارت کا دکھاوا تھا۔ بعد میں یہی بات راولپنڈی اور اسلام آباد میں کثرت سے نوٹ کی۔ اگرچہ ہر ایک کو مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں لیکن اکثریت اسی لت کی شکار ہے۔ پہلے پہل تو میں زیادہ تر لوگوں کے ملتے ہی بہت متاثر ہوتا تھا کے وہ بہت ہی امیر ہیں، پھر آہستہ آہستہ پتا چلا کے جو زیادہ امیر دکھتے ہیں وہ اکثر کم امیر ہوتے ہیں۔ جبکے اکثر امیروں کے پاس دکھانے کے لئیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر غالب کا شعر یاد آگیا۔

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا، یہ بازی گر کھلا

سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک نے یہ رحجان اور بھی زیادہ برھا دیا جہاں لوگ کسی اور کی گاڑی، گھر یا ہوٹل میں جاکر اس انداز سے تصویریں اترواتے ہیں کے دیکھنے والوں کو لگے کے دکھنے والا کوئی رئیس زادے سے کم نہیں ہے۔

دو دن پہلے ایک دوست نے آزاد چائے والا کی ایک ویڈیو پر تنقید کی جس میں آزاد چائے والا ایک لڑکے کا انٹرویو کر رہے ہیں جس کا دعوہ ہے کے اس نے چھے کڑور روپے کمائے ہیں۔ میرے اس دوست نے لکھا کے ” مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کے آزاد چائے والے کی کہانیوں میں ہر امیر بننے والے نوجوان لڑکے کے پاس صرف تیرہ ہزار کی کرسی اور پینتیس سو کا پردہ ہی کیوں ہوتا ہے”۔ جس کا مطلب یہ ہے کے اگر وہ اتنے ہی امیر ہیں تو شاہانہ انداز کیوں نہیں دکھاتے۔ میں نے اس محترم دوست کی پوسٹ پر جواب دینے سے گریز کیا کہ ہر بندے کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے اور اپنے خیالات کے اظہار کا حق رکھتا ہے چاہے وہ خیالات کسی اور کے لئے غلط ہی کیوں نہ ہوں۔

ایک وقت تھا جب میرے اوپر درویشی روح طاری تھی تو میرے ایک پرانے شاگرد عثمان پرویز دو ہزار تیرہ کے لگ بھگ میرے پاس کورس کرنے آئے تو میں نے انکو بتایا کے انٹرنیت سے پیسے کماکر امیر ہونا بہت آسان ہے۔ وہ معصوم بچہ میری بات مان گیا لیکن چند دن کے بعد مجھے آکر کہنے لگا کے سر میری والدہ کہتی ہیں کے اگر اتنے پیسے کمانے ممکن ہیں تو آپ ایک کرائے کے گھر میں بنا گاڑی کے کیسے رہ رہے ہیں؟😂۔ میں نےکہا کے بیٹا کیا لازمی ہے کے امیر بننے کے بعد دکھائیں بھی؟ کچھ عرصے بعد اس بچے کو پتہ چل گیا کے میں نے زندگی میں تھوڑا بہت کمایا ہوا ہے۔ اور اس بات کے لئیے مجھے گاڑی بھی نہیں لینی پری۔😂 آج اس بچے کی پاکستان میں اپنی سوفٹ وئیر کمپنیز ہیں اور ملتی ملین ڈالر ریونیو کمارہا ہے۔

کسی نے سٹیو جابز سے پوچھا کے آپ مہنگی مہنگی گاڑیاں اور گھر کیوں نہیں لے سکے، آپ تو اتنے امیر ہیں۔

سٹیو جابز نے جواب دیا کے “کبھی وقت ہی نہیں ملا”۔

میں نے ایسی کئی باتیں بار بار سنیں تو معلوم ہوا کے یہاں شاید امیر بننا اتنا نہ مشکل ہو جتنا امیر دکھنا ہے۔ لوگ کسی کی گھڑی، موبائل، گاڑی اور رہن سہن سے کسی کے امیر ہونے کے اندازے لگارہے ہوتے ہیں۔

اپنی زندگی میں ایسے کئی لوگوں کو دیکھ چکا ہوں جو اپنی حثیت سے برھ کر کپڑے، جوتے، فون، گاڑی اور گھر لے کر لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کے ہم امیر ہیں۔ جبکہ امیروں کو شاید پتہ بھی نہ ہوکے امیر دکھنے کے لئیے کیا کرنا چاہئیے، وہ ویسے ہی امیر جان لئے جاتے ہیں۔

چند دن پہلے قاسم علی شاہ فاوئنڈیشن کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں بولنے کا موقع ملا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کے ایک گیر ملکی شخص سٹیج کے گرد چکر لگا لگا کر ویڈیوز بنا رہا تھا۔ میں حیران تھا کے فاونڈیشن نے کسی غیر ملکی کی بجائے پاکستانی فوٹوگرافر کیوں نہیں ہائیر کیا۔ بعد میں پتہ چلا کے وہ سادی سی ٹی شرٹ میں ملبوس غیر ملکی ایک بڑکی امریکی کمپنی کا مالک تھا۔ یہ سن کر بہت حیرانگی ہوئی۔ کے اگر یہ ہمارے ملک کا باشندہ ہوتا تو ٹپ ٹاپ ہوکر کسی مہنگی سی گاڑی میں پہنچتا، تھوڑی شو شاہ مارتا اور پھر سیت پر بیٹھا رہتا تاکہ امیروں کے انداز سے اپنے امیر ہونے کو ثابت کر سکے۔

یہ سوچ کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی اگرچہ میری گاڑی مہنگی نہیں تھی، لیکن ویسے اپنے تئیں ٹپ ٹاپ ہوکر وہاں پہنچا اور پورے پروٹوکول کیساتھ پی سی ہوٹل کے ہال میں وی آئی پی سیٹس پر براجمان ہوگیا۔ آج دو ہفتے کے بعد یہ بات پھر یاد آئی تو دل میں ایک موہوم سی خواہش پیدا ہوئی کے میں بھی اس غیر ملکی کی طرح سادگی اختیار کرسکوں کیوں کے امارت آپ کی زات میں ہونی چاہئیے، کپڑوں، گاریوں اور انداز میں نہیں۔ پھر سوچا مٹی پاو، زندگی کا مزا تو شو شا مارنے میں ہے۔😂