وہ صرف پندرہ سال کا تھا جب اسے احساس ہونا شروع ہوا کہ پوری دنیا اس کے خلاف تھی۔ مگر اس کی دنیا ہی کتنی تھی؟ ایک خاندان، کچھ کلاس فیلوز اور سکول کے اساتذہ۔ سب اسے نا اہل کہتے تھے۔ چند لوگوں کے علاوہ، سب اسے ناہل کہتے تھے۔ سب اسکی توہین کرتے تھے یا شاید وہ اس توہین کو زیادہ محسوس کرتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ حساس تھا۔
یہی حساسیت اسکی تکلیف کا باعث تھی۔ مگر کیا کرتا، ابھی کم عمری کی وجہ سے سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہی حساسیت تکلیف تو دیتی ہے مگر اس کی وجہ سے کچھ ایسے لوگ اسطرح جوان ہوتے ہیں کہ اپنے اور اردگرد کے حالات میں بدلاو لاسکتے ہیں۔
دوسروں کی نفرت اور دئیے گئے توہین کے احساس سے وہ کڑھتا تھا اور کچھ ایسی مافوق الفطرت طاقت کا متلاشی تھا جس سے وہ لوگوں سے اپنی توہین کا بدلہ لے سکے۔
جب تلاش برقرار رہے تو لوگ ایک دن اپنے رب کو بھی پا لیتے ہیں جبکہ وہ تو کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو اسے روحانی یا شیطانی طاقتیں سکھا سکے، بس کوئی طاقت تو ہاتھ آئے۔
آخر تلاش کچھ کارگر رہی اور کم عمری میں ہی اسنے چلہ کشی، وظائف، ہپناٹزم، قیافہ شناسی اور نفسیاتی علوم کی تربیت لینی شروع کردی۔ لیکن جس جس سے بھی تربیت لی، وہ بھی خودساختہ استاد تھے لہذا چند ایک فوائد سے ہٹ کر منزل مقصود نہ مل سکی۔
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی معاشی مجبوریاں بھی اسے کچھ نوکری وغیرہ کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔ اسکے دن رات صرف دو مقاصد کے لئے گزر رہے تھے، ایک مافوق الفطرت طاقت اور دوسرا اچھا ذریعہ معاش۔ یہی سفر اسے یہاں سے وہاں بھٹکاتا رہا اور پھر ایک دن وہ ایک ایسے گرو سے ملا جس کے پاس ان چیزوں کے حل موجود تھے۔
گرو اسے کہتے ہیں جو عمل میں اتنا پختہ ہو کہ اگر نشانہ لگائے تو ہر نشانہ ٹھیک لگے۔ اگر تربیت دے تو تربیت یافتہ انسان نہیں بلکہ قیمتی ہیرے بن جائیں۔
اس نے بھی کہا کہ گرو جی میں آدھی منزل پہنچ چکا ہوں بس باقی کی آدھی منزل نہیں مل رہی اور صحیح گرو بھی نہیں تھا۔ آپ برائے مہربانی میری مدد کیجئیے۔
گرو جی نے پوچھا، “کیا چاہتے ہو؟” اس نے کہا، “گرو جی، وہ جادوئی طاقت کے میں اپنے مخالفین کو نیچے گرا سکوں۔”
گرو جی نے کہا، “پتر، کسی کو نیچے گرانے کی بجائے خود مزید اونچا کیوں نہیں ہو جاتے؟” اس نے کہا، “گرو جی، اس لئے کہ میں اس جادو سے اپنی معاشی کمزوریاں بھی دور کر لوں گا۔”
گرو جی بولے، “پتر جی، اگر جادو سے معاشی کمزور یاں دور ہوسکتیں تو ہمارے اردگرد جادوگر ہی سیٹھ اور رئیس ہوتے۔ کیا تم نے کسی جادوگر کو سیٹھ بنتے دیکھا ہے؟” وہ بولا، “نہیں۔” گرو جی نے کہا، “پتر، اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے تو رستہ بھی صحیح چن لو۔”
یہ بات دل میں گھر کر گئی کہ واقع ہی کوئی جادوگر کبھی سیٹھ یا امیر نہیں بن سکا۔ لیکن کیا کرتا، اسے کچھ بھی طاقت چاہئیے تھی جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ وہ بولا، “گرو جی، لیکن میں ایسی طاقت کے حصول کے بعد دوسروں کی مدد بھی کرنے کے قابل ہوجاوں گا تو مدد بھی کروں گا۔”
گرو جی بولے، “پتر، نیکی انسان کی انسان سے قابل زکر اور قابل تعریف ہوتی ہے۔ کسی غیر انسانی طاقت سے طاقت کا نشہ تو ہوجاتا ہے لیکن لوگوں سے نیکی نہیں۔”
گرو مزید بولے کہ اگر ایک جادو سکھاوں جس سے تمہاری تینوں ضرورتیں
۱۔ مخالفین کی نسبت اپنا قد اونچا کرنا۔
۲۔ اپنے معاشی مسائل کا حل
۳۔ دوسروں کی مدد
پوری ہوسکیں اور غیر انسانی اور غیر شرعی کام بھی نہ ہو؟ وہ بولا، “گرو جی، ایسا کونسا جادو ہے؟”
گرو جی بولے، “پتر جی، اس جادو کا نام ہے “کاروبار”۔
وہ یہ سن کر حیران پریشان ہوگیا اور دل ٹوٹ گیا کہ گرو جی نے یہ کیا بات کی۔ میرے جیسا غریب بھلا کیسے کاروبار کر سکتا ہے؟ اسنے کہا، “گرو جی، کاروبار تو میرے بس سے بہت باہر ہے، یہ تو بہت مشکل ہے۔”
گرو جی نے کہا، “پتر، یقین کرلو، کاروبار کسی جادو سیکھنے کے عمل سے سو گنا آسان ہے اور زیادہ توانا۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ فرعون کے زمانے میں بھی جادوگر بادشاہ کے تنخوادار ہوتے تھے؟” وہ بولا، “جی گرو جی، سنا ہے۔”
گرو جی بولے، “پتر جی، دنیا میں ازل سے ابد تک صرف دو ہی طاقتیں برقرار رہتی ہیں۔
ایک خالق کائنات کی طاقت اور دوسری اسکے عطا کردہ رزق کی طاقت۔
واہ! گرو جی تھے یا اچھے وکیل۔ دلائل دل موہ لینے والے تھے۔
وہ بولا، “یقین گرو جی، میں اسکے حصول کے لئے کیا کروں؟” گرو جی نے کہا، “پتر، بہت آسان ہے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی چار چیزیں پر ریسرچ کرو۔
۱۔ انکی ضرورتیں کون کون سی ہیں۔
۲۔ انکی مجبوریاں کون کون سی ہیں
۳۔ انکی بیماریاں کون کون سی ہیں۔
۴۔ انکی خواہشیں کون کون سی ہیں۔
انکی کسی ایک کمزوری کا حل ڈھونڈ لو، کاروبار شروع ہوجائے گا۔ اگر چار کمزوریوں میں سے انکی خواہشوں یا بیماریوں کا حل نکال لیا تو جلد امیر ہوجاو گے۔
اسنے کہا، “گرو جی، لیکن حل کیسے ڈھونڈوں؟” گرو جی نے کہا کہ تم پورے دن میں صرف تین کام کرنا شروع کردو، اسکا حل مل جائے گا۔ وہ تین چیزیں ہیں۔
۱۔ غور و فکر
۲۔ عدم وجود میں رہنے والی چیزوں کا تصور
۳۔ پہلی دونوں چیزوں کی سوچوں کے نتائج کو عملی طور پر پرکھنا۔
وہ مزید کچھ بولنے لگا لیکن گرو جی بولے، “جا پتر، میری کوئی مصروفیت کا وقت ہے۔”
وہ واپس پلٹا اور دل میں کئی سوال لئیے واپس آگیا۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ اب اسے صرف ایک ہی جنگ لڑنی ہے وہ یقین اور بے یقین ہونے کی کیفیت تھی۔ لیکن جب بھی گرو جی کی باتیں ذہن میں آتیں تو انکے دلائل یاد آنے لگتے ۔ اسی طرح کبھی وہ گرو کی باتوں پر عمل کرتا اور کبھی بے یقینی گھیر لیتی۔ اسی طرح کچھ وقت گزرتے گزرتے اس نے لوگوں کی ضرورتوں اور خواہشوں پر ریسرچ کی اور مجبوریوں اور بیماریوں پر غور نہ کیا۔ بحر حال، لوگوں کی کچھ ضرورتوں کے حل نکال لئے اور کچھ پیسے کمانے شروع کردئیے۔
ماہ و سال گزرگئے اور گرو جی سے ہر ملاقات میں مزید موٹیویشن ملتی گئی۔ حالات بدلنے شروع ہوگئے، غربت ختم ہوئی اور امارت شروع ہوگی۔ مخالفین پیچھے رہ گئے اور وہ آگے۔ معاشی ضرورتیں پوری ہوئیں اور حسب توفیق دوسروں کی مدد بھی۔
یہ جادو کام کر گیا اور اسکا شمار امیروں میں ہونا شروع ہوگیا۔ بہت کچھ بدل گیا لیکن ایک چیز نہیں بدلی۔ وہ اسکی بیوی کا وہم تھا جو کہ اکثر عورتوں میں ہوتا ہے۔ جب کاروبار ہو تو کبھی اونچ کبھی نیچ تو ہو ہی جاتی ہے۔ایک بار کچھ کاروباری حالات چند دن تک خراب رہے تو اسکی بیوی کی سہیلی نے بتایا کہ شاید آپکی امارت سے جل بھن کر کسی نے کاروباری بندش کا جادو کر دیا ہے۔ بیوی نے اصرار کیا کہ کے فلاں فلاں باوہ جی سے بندش کا علاج کروانا چاہئیے۔
وہ بولا، “کیا ان باوہ صاحب نے اپنے کاروبار کی بندش توڑ کر کچھ کاروبار کر لیا ہے جو ان سے مدد لوں؟
بیوی بولی، “نہیں، وہ تو کوئی کاروبار نہیں کرتے صرف لوگوں کا جادو سے اعلاج کرتے ہیں۔”
اسنے اپنی عورت سے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا جادو کاروبار ہے۔
کل کہیں وہ کسی سے کہہ رہا تھا کہ کاروبار کا جادو سیکھنے کیلئیے لوگوں کی کمزوریوں، مجبوریوں، بیماریوں اور خواہشوں پر ریسرچ کرو اور غور و فکر سے اس کے حل تلاش کرو۔ سامنے والا بے یقینی سے دیکھنے لگا۔
وہ مسکرا دیا۔