آقائے دو جہاں، حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اس حدیث مبارکہ کا خیال ذہن میں آیا تو سوچ آئی کہ کیا اس میں صرف خیرات کرنے اور خیرات لینے والوں کا زکر ہے؟ کچھ عرصے بعد سمجھ آئی کے اس حدیث مبارکہ میں ہر اس ہاتھ کو بہتر کہا گیا ہے جو رزق کے تقسیمی عمل میں اوپر ہو۔ ممکن ہے میری رائے غلط ہو (علما اکرام بتا سکتے ہیں)، لیکن میری سمجھ کے مطابق ہر وہ شخص جو اس میں خیرات دینے والوں کے علاوہ وہ لوگ بھی آتے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتے ہیں۔ مثلا کاروباری حضرات جو اپنے کاروبار میں نوکریوں کی جگہ نکالتے ہیں اور کئی لوگ ان کی ٹیم میں شامل ہوکر اس کاروبار سے اپنا رزق اکٹھا کرتے ہیں۔ لہذا آپ اکثر خیرات دینے والےاور کاروبار کرنے والے لوگوں کو زیادہ خوشحال پائیں گے۔
یہ بات سوچتے سوچتے خیالات کی رو بھٹک گئی اور خیال آیا کے ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ نیچے والے ہاتھ بننے کے خواہش مند ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ دیکھ لیجئے کے گھروں کے باہر، رستوں پر، ٹریفک سگنلز پر، مارکیٹوں میں آپ کو جگہ جگہ بھکاری ملیں گے۔ یہ بھکاری پیشہ ور گداگر ہوتے ہیں اور زندگی میں مانگ مانگ کر ہی گزارتے ہیں۔ ایک شام میں اپنی فیملی کیساتھ گھر سے باہر تین مکامات پر مختلف مارکیٹوں میں تقریباً دو گھنٹے ٹھہرا، اس دوران میں تقریباً پچاس سے ساٹھ بھکاری آئے اور مانگتے رہے۔ یہاں تک کے ہمارا زیادہ تر وقت ان سے معذرت کرتے کرتے ہی خرچ ہوگیا۔
تاہم اس سے یہ مراد بالکل بھی نہیں کے خیرات نہیں دینی چاہئے۔ صدقہ وخیرات اور زکواة بہت لازم ہیں۔ اس کے اولین حقدارین میں فقرا اور مساکین شامل ہیں۔ مگر وہ لوگ نہیں جنکا پیشہ ہی مانگنا ہو۔ یا پھر ایسے لوگ جو مسکین بھی نہیں اور فقیر بھی نہیں۔
پیشہ ور گداگروں کو آپ جانتے ہیں، لیکن کچھ اور لوگ بھی ان میں شامل ہیں شاید آپ انکو گداگر نہ سمجھتے ہوں۔ یہ لوگ بھی بھکاریوں کی کاروباری جگہوں پر ہی پھرتے ہیں اور اکثر انہوں نے ناڑے، مسواک، تسبیح، بچوں کی کتابیں، جرابیں اور کچھ ایسی چیزیں پکڑی ہوتی ہیں جو شاید کوئی گاہک فوراً خریدنا نہ چاہے لیکن یہ سوچ کر کہ بچارہ محنت کی کوشش کررہا ہے، اس لئے اکثر لوگ انکو کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔
ان دو قسموں کے علاوہ اور بھی قسمیں ہیں جو پیشہ ور گداگر تو نہیں لیکن مانگتے پھر بھی ہیں، مثلا کسی ریسٹورینٹ کے باہر کھڑے سیکیوریٹی گارڈز، ویٹرز، پارکنگ ایریا میں کھڑے Valet Parkingوالے لوگ۔ اور تو اور، کئی کاروباری حضرات کو اکثر میسج یا ایمیلز بھی آتی ہیں جس میں کئی لوگ ترلا منت کررہے ہوتے ہیں کے انہیں نوکری دے دی جاے۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہمیں بھی ایسی کئی ایمیلز موصول ہوتی ہیں جس میں گیسٹ پوسٹ مانگنے والے لوگ بھی ترلا منت کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے حالات کا زکر کرکے ایمیلز پر خیرات مانگ رہے ہوتے ہیں(بھائی تمام شعبوں کیطرح اس شعبہ نے بھی ترقی کر لی ہے)۔😉
اگر ان لوگوں کی تعداد میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مانگنے والوں کو شامل کریں تو شاید ہماری قوم کا آدھا حصہ انہیں پر مشتمل ہو۔ جبکہ دوسری طرف ہماری قوم کے کئی افراد چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی غیرت کا مسلہ سمجھ کرکے مرنے مارنے پر بھی اتر آتے ہیں۔ غیرت کے کچھ مسائل تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر غیرت کو سوجانا چاہئے تھا۔ مثلا، اگر معاشی حالات خراب ہوں تو رزق کے حصول کیلئے کوئی بھی حلال کمائی کے پیشہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مثلا شادی بیاہ پر اپنی حثیت سے بڑھ چڑھ کر انتظامات کرنا غیرت کو سہارا نہیں دیتا۔ مثلا کسی غریب ماں باپ کے امیروں میں رہنے والے بچوں کا اپنے دوستوں کو اپنے ماں باپ کا تعارف کروانے سے عزت نہیں گھٹتی ہے۔” غیرت کے غلط استعمال کی اور بھی کئی مثالیں ہیں، لیکن یہاں لکھنا مناسب نہیں۔
ایک دن تو انتہا ہوگئی، ایک مارکیٹ میں ایک خواجہ سرا نے آکر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا، اس خواجہ سرا کا قد تقریبا چھے فٹ کے قریب تھا اور بادی نظر میں کوئی ورزشی جسم رکھتا تھا۔ میں نے استفسار کیا تو اس نے خیرات مانگی۔ میں نے کہا کے خدا کے بندے تم تو کسی عام انسان سے بھی تگڑے ہو، پھر کام کیوں نہیں کرتے۔ یہ سن کر برا منا گیا اور کہنے لگا “اینہاں عقل مند نہ بن، کچھ دینا ای تے دے ورنہ اپنا رستہ نپ”۔ اس نے مجھے خوب جلی کٹی سنائیں اور چلا گیا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کے غیرت تو اسے خیرات مانگتے ہوئے آنی چاہئے تھی، سمجھانے پر نہیں۔😀 بس دل میں یہ بات رہ گئی کے اس سے کہوں کے دوست یہ آپ کی غیرت محسوس کرنا کا وقت نہیں تھا، غیرت کا ساتھ تو آپ نے تب ہی چھوڑ دیا تھا جب پہلے دن کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا تھا۔ پر کیا کیجئے، یہ کہہ نہیں پایا۔
ایک اور واقع میں ہمارے ایک آفس کے ایک سیکیورٹی گارڈ جس کی عمر تقریبا پچیس سے تیس سال تھی، مجھے آفس میں ایک دن آتے وقت روکا اور کہا کے سر ایک ہفتے کے بعد میری شادی ہے اور میرے ماں باپ بھی نہیں ہیں، میری کچھ مدد کر دیں۔ دل میں خیال آیا کے جوان مرد ہو تو پھر بھی اسے اپنی مسکینی یا یتیمی کا حوالہ دے کر مدد مانگنی چاہئے؟ میں سوچ میں پڑھ گیا کے میری اپنی شادی کے وقت میرے معاشی حالات بہت ہی ناساز تھے تو مجھے لگا کےاسلام میں نکاح آسان ہے چاہے مٹھی بھر کھجوروں کے حق مہر پر اگر خاتون راضی ہو تو ہوسکتا ہے۔ میں اسلام کی عطا کردہ یہ سہولت چاہتا تھا کے بے وجہ رسم و رواج کی بجائے آسانی سے نکاح کیا جائے، لیکن کر نہیں پایا۔
کیا کہیں کے رب کریم کو مانتے ہیں پر اسکی بات نہیں مانتے بلکہ کرتے معاشرے کے مطابق ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کے جو چیزیں مانگنے والی نہیں ہوتیں وہ بھی لوگ کہہ دیتے ہیں، مثلا کئی لوگ کہہ چکے ہیں کے “خدا کے واسطے میرے بچے کو کوئی ہنر سکھادیں”۔ میں اکثر کہتا ہوں کے دوست ہنر سکھایا نہیں جاتا بلکہ سیکھا جاتا ہے۔ اس میں سیکھنے والے کی شدید خواہش لازمی ہے چاہے سکھانے والے کی سکھانے کی خواہش کم ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا ہنر سیکھنا ہو تو جو ترلا ہم کسی انسان سے کرتے ہیں، وہی رب کریم کی ذات پاک سے کر لینا چاہئے اور ساتھ میں سیکھنے کی شدید تر کوشش کرنی چاہئے۔
جس قوم کے افراد کا رویہ یہ ہو، اس قوم سے ہی آنے والے حکمران بھی اکثر در در پر صدائیں لگا کر بھیک ہی اکٹھی کررہے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب فرماتے تھے کے کسی غیر اللہ سے بار بار مانگنا بھی شرک ہے۔ اگر مجبوری ہو تو صرف ایک دو بار کہیں، مزید کہنا بھی شرک کے زمرہ میں آتا ہے۔
غیرت کا صحیح استعمال تب ہوتا ہے جب غیر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کیا جائے۔
لیکن کیا کیجئے کے ہماری قوم کی غیرت والا سوفٹ وئیر ہی خراب ہے، جہاں جو کرنا چاہئے، وہ نہیں کرتا۔
آئیں آج سے اپنا اور اپنے اردگرد کا سوفٹوئیر ٹھیک کرنے کی کوشش کریں کے غیرت کسی غیر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے ہلاک ہوجاتی ہے۔