نوے کی دہائی میں میرے والد صاحب کو بہت شوق تھا کے انکے بچے اپنے دفاع کی صلاحیت حاصل کریں۔ والد صاحب نے ہم دونوں بڑے بھائیوں کو کراٹے کلب میں داخل کروا دیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ٹین ایجر فلمیں دیکھ دیکھ کر کس طرح ہیرو کی طرح لڑائی کرنا سیکھنا چاہتا ہوگا۔
بحر حال کلب میں داخلہ لے کر پتہ چلا کے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ہمیں ایک سے دو ماہ تک صرف یہ تربیت دی جاتی کہ کس طرح آپ نے ایک خاص انداز میں اپنی کک اٹھا کر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا ہے۔ جب بہت مشکل ہو تو پھر پاؤں نیچے کرنا ہوتا ہے لیکن پھر سے اٹھا کر ایک کک کے انداز میں اٹھائے رکھنا ہوتا ہے۔
قسم سے ایسے لگتا تھا جیسے صرف سزا ہی دی جارہی ہو۔
استاد گرامی کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں تھی لیکن پھر بھی جب بھی موقع ملتا، کھسر پھسر کے انداز میں آپس میں بات کرتے کہ ہمیں سر سے کہنا چاہئیے کہ سر پلیز کچھ مزید گائیڈ کیجئیے، ہمیں جلد سے جلد ککس مارنے کی تربیت کرنی ہے اور پھر فائیٹ۔ لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی کہ یہ کہہ سکیں۔
پھر ایک وقت آگیا کی ایک کک کو کھڑے رکھ رکھ کر سزا پوری ہوئی اور وہی کک مارنے کی تربیت شروع ہوئی۔ اسی طرح کرتے کرتے چند ایک ککس سیکھ لیں۔
شومئی قسمت سے ہمارے استاد محترم اعجاز صاحب کو میرا ککس اور پنچ کرنے کا انداز پسند آگیا اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے ساتھ فائیٹ کی پریکٹس کروانی شروع کردی۔ پریکٹس بڑھتی گئی اور ایک دن سر سے فائیٹ کی پریکٹس کررہا تھا کے اچانک سر اعجاز احمد صاحب نے سائیڈ کک پوری طاقت سے پیٹ میں ماری اور میں تقریبا سات آٹھ فٹ دور تک دھکیلتا ہوا گیا۔ چوٹ اتنی شدید تھی کہ دماغ گھومنا شروع ہوگیا اور مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اسی اثنا میں سر اعجاز پینترا بدلے میرے سر پر آکر ایک اور کک مارنے کے لئیے اٹھا چکے تھے جو میری کنپٹی کے پاس پہنچ چکی تھی۔ سر اعجاز کو احساس ہوا کے بچہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے تو انہوں نے وہ کک وہیں روک لی، ورنہ شاید آج میں آپ سے مخاطب ہونے کی بجائے روحوں کی محفلوں سے لطف اٹھا رہا ہوتا۔
سر اعجاز احمد صاحب نے مجھے سمبھال لیا اور کچھ پانی وانی پلایا تو دماغ زرا بحال ہوا۔ سر اعجاز کو دکھ بھی لگا ہوگا لیکن لازمی ہے کے شاگردوں کی تربیت سختی سے ہی کی جائے۔
بحرحال میں نے سر سے معذرت کی کے سر، غلطی ہوگئی تھی کے آپکی کک پر نگاہ قائم نہ رہ سکی وہ مجھے چوٹ لگ گئی۔ سر نے کہا، غلطی تمہاری نہیں، میں خود ہی زرا نئے انداز سے تمہیں چیک کررہا تھا کے تم اپنے پاوں پر کھڑے رہ پاتے ہو کے نہیں۔ اور بہت خوب کے تمہاری آنکھوں میں تارے نظر آنے شروع ہوگئے، سات فٹ دور تک دھکیلے گئی لیکن گرے نہیں۔
میں نے کہا، سر میں خود حیران ہوں کے ایسا کیسے ہوا؟
سر نے کہا جو دو دو ماہ تک ہم آپ کو سوائے پاؤں اٹھائے رکھنے اور کرسی کے پوز میں کھڑے رہنے کے اور کچھ نہیں سکھارہے تھے، یہ اسکی برکات ہیں۔
دوستو، زیر نظر تصویر میں وہ پوز آپکو نظر آرہا ہوگا جو کراٹے میں اکثر لوگ پوز مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب جبر مسلسل کی طرح دو دو ماہ تک آپ کو سزا کی طرح کی پریکٹس کروائی جائے تو جان لیجئیے کے آپ کی اعصابی مضبوطی بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مزید یہ کے کک کی طرح پاؤں اٹھا کر رکھنے کی پریکٹس آپ کو ایک پاؤں پر زیادہ سے زیادہ دیر کھڑے رہنا سکھاتی ہے تاکہ جب آپ فائیٹ کررہے ہوں تو آپ کا توازن خراب نہ ہوسکے۔
استاد جب بھی اپنے شاگرد کو کچھ بھی سکھائے تو اسکا۔ شاگرد طبیعت سے ہمیشہ جلد باز ہی ہوتے ہیں۔ مجھے لگا کے ہم سے دھوکا ہوا ہے، دو سے تین ماہ تک سوائے ورزش اور سزا کی طرح کی پریکٹس اور پنچز کے کچھ نہیں سکھایا گیا۔
اسی طرح کچھ دوست جو ہمارے پاس جی بی او بی کورسز کرنے آتے ہیں، انکو بھی لگتا ہے کے ہم دھوکا کر رہے ہیں۔ 😂😂😂😂
دوستو، استاد دھوکا نہیں کرتا، بس ہم وہ نہیں جانتے جو استاد جانتا ہے